ماریہ شریف چوہدری
پلندری آزاد کشمیر
کیا آج ہم آزاد ہیں؟
میرے ہمنوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں !
ابتدا ہے رب کریم کے نام سے جو آسمانوں اور زمینوں کی سب پوشیدہ باتیں جانتا ہے جس کے بے شمار احسانوں میں سے ہم پر یہ بھی احسان ہے کہ اس نے ہمیں پاک سرزمین سے نوازہ جہاں ہم آزادی سے سانس تو لے سکتے ہیں مگر جس مقصد کے لیے ہم نے پورا کرنے میں ناکام ہے آج ایک آزاد مملکت میں رہنے کے باوجود ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہم آزاد ہیں بھی یا نہیں۔
وطن عزیز میں سیاسی آزادی کی بات کی جائے تو اس میں ہم کہنے کا یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہر شہری کو ووٹ دینے اور ہر قسم کی آزادی کا حق ہے لیکن افسوس یہ آزادی صرف چند چند طبقوں تک محدود رہ گئی ہے کون نہیں جان کون نہیں جانتا کہ معاشرہ کرپشن لوٹ مار قتل اور بے ایمانی کے دباؤ تلے کراہ رہا ہے۔
" یہ وطن تمہارا ہے، ہم ہیں خواہ مخواہ اس میں'
مذہب سے دور ہو سے زر میں ہر شخص اندھا ہو چکا ہے زبان پر گرفت کیا اسی کا نام آزادی ہے ہم آخر کس آزادی کی بات کرتے ہیں مقبوضہ کشمیر کی یا بوسنیا کی یا پھر عراق کی جو آج بھی طاقتور کے پنجے استبداد میں ہو کر دی ہے پیلے چہروں والی ہم وہ قوم ہیں جس کی آئندہ نسلیں بھی غلام ہو چکی ہیں میں تو اس حد تک ہوگی کہ ہمیں تو آزادی ہے مگر کچھ ہے سپنے وعدۂ فردا ہے،:
خبر اچھے دنوں کے دینے والے شکریہ لیکن کہیں ایسی باتوں سے کسی کا دل بہلتا ہے۔
شکریہ!
Comments
Post a Comment